صدا گونجی تھی خوابوں کے خرابے میں کبھی
مگر اب خامشی چھائی ہے سایے میں کبھی
در و دیوار سب سنتے ہیں اب سانسوں کی چاپ
یہ گھر بھی بول اٹھتا تھا دعاؤں میں کبھی
خزاں کے پھول جب کِھلتے تھے آنکھوں میں کہیں
بہار آتی تھی چپ چاپ ہواؤں میں کبھی
گواہی دے گیا سورج بھی شبِ تنہائی کی
ستارے چھپ گئے دل کی صداؤں میں کبھی
نہ جانے کس امید پر زندہ ہوں اب بھی میں
کہ روشن تھا چراغ دل جلاؤں میں کبھی
یہ لمحے، یہ فسانے، سب دھواں بنتے گئے
جو لکھے تھے کسی کے ان لبوں پہ ہم نے بھی
بدن ساکت، زباں خاموش، آنکھیں پتھریاں
حیات ایسی گزاری ہے خطاؤں میں کبھی
حیات بعد از مرگ
Hayat Baad Az Marg
Fozia Bashir alvi
Post a Comment